پہلے یہ خیال تھا کہ ہفتے میں تین دن کم از کم بیس بیس منٹ سخت ورزش کی جائے تو صحت پر اچھا اثر پڑے گا لیکن اب یہ تصور تبدیل ہوگیا ہے اب خیال یہ ہے کہ ہفتے میں پانچ دن آدھا آدھا گھنٹہ ورزش کی جائے لیکن سخت محنت والی ورزش کی بجائے درمیانی محنت والی
اکثر ماہرین چہل قدمی یا تیز قدمی کو بہترین ورزش قرار دیتے ہیں۔ اگر بیس منٹ میں ایک میل چل لیا جائے تو خوب ہے لیکن اس بہ ظاہر سیدھی سادی ورزش کیلئے بھی خاصی جان اور سکت کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں ایک برطانوی ماہر نے جو ورزش سے متعلق برٹش ہارٹ فاونڈیشن کا مشیر بھی ہے کچھ اور اعدادوشمار شائع کیے ہیں جن کا تعلق چہل قدمی (واکنگ) کے ذیل میں مرد اور عورت کی کارکردگی کے فرق سے ہے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق 35 سال کی عمر تک تو تقریباً سارے ہی مرد اتنا چل لیتے ہیں (یعنی بیس منٹ میں ایک میل) لیکن اس عمر میں 14 فیصد عورتیں اس کوشش میں ناکام ہوجاتی ہیں جب کہ 45 سے 54 سال کی عمر میں 40 فیصد عورتیں ایک میل کا فاصلہ بیس منٹ میں طے کرنے میں ناکام رہتی ہیں جب عورتیں 65 سال کی عمر کو پہنچتی ہیں تو ان میں سے نصف اس کوشش میں ناکام ہوتی ہیں۔74 سال کی عمر کو پہنچنے تک تو بس 20 فیصد عورتیں ایسی رہ جاتی ہیں جو اس کوشش میں کامیاب ہوسکیں۔
اب رہی مردوں کی بات تو اندازہ یہ ہے کہ ادھیڑ عمر تک جو مرد بیس منٹ میں ایک میل چل لیتے ہیں ان کی تعداد اس عمر کی عورتوں سے چار گنا تک ہوتی ہے ۔ 65 سال کی عمر میں بھی ان مردوں کی تعداد جو اتنا تیز چل لیتے ہیں عورتوں سے تقریباً دگنی ہوتی ہے اگر واکنگ کے دوران تھوڑی سی بھی چڑھائی آجائے تو بیس منٹ میں ایک میل کا ہدف حاصل کرنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں ادھیڑ عمر کی 80 فیصد خواتین یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں جبکہ 44 فیصد مردوں کو ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ خیال رہے کہ یہ اعدادوشمار برطانیہ یا یورپ کے مردوں اور عورتوں کے بارے میں ہیں جہاں آج کل مرد عورت دونوں میں چہل قدمی او دیگر ورزشوں کا زور ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے خطے میں صورتحال مختلف ہوسکتی ہے۔
آج کل صرف ماہرین امراض قلب ہی اس بات پر زور نہیں دے رہے کہ پابندی اور باقاعدگی سے ایسی ورزش کی جائے جو زیادہ سخت نہ ہو بلکہ سرطان کے معالج بھی اس کی تاکید کررہے ہیں کہ چھاتی اور قولوں کے سرطان اور غالباً رحم اور غدہ مثانہ کے سرطان سے بچنے نیز وزن پر قابو رکھنے کے لیے بھی ورزش ضروری ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کولوں‘ گردے اور چھاتی کے سرطانوں کی کل تعداد میں سے ایک تہائی کی وجہ وزن کی زیادتی ہوسکتی ہے اور اگر لوگ جسمانی طور پر زیادہ فعال ہوجائیں تو ان سرطانوں کی وجہ سے واقع ہونےوالی اموات میں کمی آجائے گی۔
برطانوی ماہر کے مطابق پہلے یہ خیال تھا کہ ہفتے میں تین دن کم از کم بیس بیس منٹ سخت ورزش کی جائے تو صحت پر اچھا اثر پڑے گا لیکن اب یہ تصور تبدیل ہوگیا ہے اب خیال یہ ہے کہ ہفتے میں پانچ دن آدھا آدھا گھنٹے ورزش کی جائے لیکن سخت محنت والی ورزش کی بجائے درمیانی محنت والی۔
کئی سال قبل کچھ اعدادوشمار ایسے سامنے آئے جن سے اندازہ ہوا کہ ہفتے میں ایک دن کی سخت ورزش جیسے اسکواش کھیلنا اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ آدمی کوئی ورزش نہ کرے جو لوگ ہفتے میں دو دن سخت ورزش کرتے ہیں ان کیلئے بھی حملہ قلب اور دیگر خطرات ان لوگوں سے زیادہ ہوتے ہیں جو بالکل ورزش نہیں کرتے جو لوگ ہفتے میں تین دن سخت ورزش کرتے ہیں ان کیلئے نفع نقصان کم وبیش اتنا ہی ہوتا ہے جتنا گھر میں گھسے اور ہر وقت ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھے رہنے والوں کیلئے۔ البتہ جو لوگ ہفتے میں تین بار سے بھی زیادہ سخت ورزش کرتے ہیں ان کی متوقع عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو مشورہ دیا جاتا تھا کہ وہ بیس منٹ سے آدھا گھنٹے تک ہفتے میں ہر دن تیز قدمی (جوگنگ) کریں۔ یہ خیال کچھ برس پہلے کا ہے۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ ہفتے میں پانچ دن آدھے گھنٹے تیز تیز چلنے کی کوشش کی جائے۔ تیز تیز چلنے یا تیز قدمی سے مراد ہے کہ سانس بس اتنا پھولے کہ بات کرنا ذرا مشکل تو ہوجائے لیکن ناممکن نہیں۔
تازہ ترین تحقیق میں چہل قدمی (واکنگ) کو نہ صرف میل اور منٹوں سے ناپا گیا ہے بلکہ یہ جائزہ بھی لیا گیا ہے کہ روزانہ کتنے قدم چلا جاتا ہے۔ مرد روزانہ اوسطاً 5569 قدم اٹھاتے یا چلتے ہیں جب کہ خواتین 6413قدم۔ ماہرین صحت کا خیال ہے کہ مرد روزانہ دس ہزار قدم چلیں اور عورتیں اس سے کچھ کم۔ یہ اتنا ہی ہے جتنا کوئی ایک ہی وقت میں تیس منٹ چل لے تاہم ہوسکتا ہے ایک شخص جو اپنے گھر‘ دفتر اور باغ میں ہمیشہ ادھر سے ادھر تیزی سے چلتا پھرتا رہتا ہے اتنا ہی فاصلہ طے کرلیتا ہو اور اپنی صحت کو اتناہی فائدہ پہنچالیتا ہو جتنا ایک شخص ایک ہی وقت میں دس ہزار قدم چل کر حاصل کرتا ہے۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ گو خواتین ورزش کے معاملے میں اتنی اچھی نہیں ہیں جتنے کہ مرد اور وہ بظاہر کم چست ہوتی ہیں لیکن عمر انہی کی لمبی ہوتی ہے تاہم یہ صورتحال بھی اب تبدیل ہورہی ہے اور دونوں کی متوقع عمر میں جو فرق تھا وہ کم ہوتا جارہا ہے۔
مختصر یہ کہ مرد اور عورت دونوں کو اس برطانوی ماہر کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے جس کا اوپر ذکر آیا ہے۔ برٹش ہارٹ فاونڈیشن کے اس مشیر کا کہنا ہے کہ پہلے یہ خیال تھا کہ اچھی صحت کیلئے ہفتے میں تین دن کم از کم بیس بیس منٹ سخت ورزش کی جائے لیکن یہ تصور اب تبدیل ہوگیا ہے اور اب خیال یہ ہے کہ ہفتے میں پانچ دن آدھا آدھا گھنٹہ ایسی ورزش کی جائے جو سخت نہ ہو بلکہ درمیانی محنت والی ہو۔
لیکن اگر بخار ہو‘ کوئی تعدیہ (انفیکشن) ہو‘ گلے کی خراش ہو‘ ایسا دمہ ہو جس پر کنٹرول نہ پایا جاسکے یا ذیابیطس ہو تو پھر مجبوری ہے۔ ایسی صورت میں احتیاط کریں۔ جو لوگ دل کی کسی بیماری میں مبتلا ہیں انہیں کسی ماہر یا معالج کے مشورے سے اپنے لیے ورزش کا پروگرام ترتیب دینا چاہیے۔
ورزش کے سلسلے میں موسم کا بھی خیال رکھیے اور احتیاط کیجئے کیونکہ بعض امراض کیلئے موسم کی خرابی کا خیال رکھنا بہت اہم ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں